7 اگست 2025 - 08:14
بحیرہ جاپان میں روسی اور چینی جنگی جہازوں کا مشترکہ مشن + کچھ اہم نکات

روس اور چین کے جنگی جہاز مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل میں مشترکہ گشت کے لئے جمعرات کی صبح بحیرہ جاپان میں داخل ہو گئے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، روسی بحریہ کے پیسیفک بیڑے کی پریس سروس نے جمعرات کی صبح اطلاع دی کہ روس اور چین کے جنگی جہاز بحیرہ جاپان میں داخل ہو گئے ہیں۔

اس ادارے نے ایک بیان میں کہا کہ روسی اور چینی بحریہ کے جنگی جہاز نے ایشیا اور بحرالکاہل کے علاقے میں مشترکہ گشت کے لئے بحیرہ جاپان داخل ہو گئے ہیں۔

تاس نیوز ایجنسی نے بیان کے حوالے سے بتایا: "روسی اور چینی بحریہ کے جہازوں نے ایک مشترکہ گروپ بنایا ہے اور ایشیا و اوقیانوس کے علاقے میں گشت کے مشن پر جاپان کے سمندر کی طرف روانہ ہو گئے ہیں۔"

اس گروپ میں روس کا بڑا آبدوز شکن جہاز "ایڈمرل ٹریبٹس (Admiral Tributs)" اور چینی کا ڈسٹرائر "شاوشنگ" شامل ہے، جنہیں دونوں ممالک کی رسد پہنچانے والی کشتیوں کی مدد حاصل ہے۔

بیان میں وضاحت کی گئی ہے کہ اس گشت کے مقاصد میں روس اور چین کے درمیان بحری تعاون کو مضبوط بنانا، ایشیا اور بحرالکاہل کے علاقے میں امن و استحکام  برقرار رکھنا، سمندری نگرانی کرنا اور دونوں ممالک کے اقتصادی اثاثوں کی حفاظت کرنا، شامل ہے۔

۔۔۔۔۔

کچھ اہم نکات:

روس-چین کا مشترکہ بحری مشن اور امریکہ-روس کے درمیان حالات کی کشیدگی ایک بڑے جغرافیائی سیاسی کھیل کا حصہ لگتے ہیں:

خطے میں طاقت کا توازن

روس اور چین کا بحری مشن ایشیا پیسیفک میں امریکی اثر کو متوازن کرنے کی کوشش سمجھا جا سکتا ہے، خاص طور پر جب امریکہ جاپان، جنوبی کوریا اور آسٹریلیا کے ساتھ اتحاد مضبوط کر رہا ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ کا رویہ

پابندیوں کے تازہ ترین امریکی فیصلے سے ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ کی جانب سے روس کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کے بجائے "دباؤ کی پالیسی" جاری ہے۔ یہ پوتن اور ٹرمپ کے درمیان محوزہ مذاکرات کے اعلان کے باوجود ایک حیرت انگیز اقدام ہے۔

چین کا کردار

تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو چین اپنی بحری طاقت بڑھا کر "انڈیا-پیسیفک" میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے پر توجہ دیتا آیا ہے۔

روس کی شراکت

روس اس وقت چین کا اتحادی ہے اور اگرچہ اس کے اپنے بھی مفادات ہو سکتے ہیں لیکن اس خاص مسئلے میں وہ چین کے ساتھ تعاون کر رہا ہے جو امریکیوں کے لئے ایک خاص پیغام بھی ہے۔

اگر امریکہ اور نیٹو مشرقی ایشیا میں فوجی موجودگی بڑھاتے ہیں تو روس-چین کے مشترکہ مشنز میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

اقتصادی پابندیاں اور فوجی چیلنجز دونوں طرف سے "پراکسی تنازعات" (جیسے یوکرین یا تائیوان) کو ہوا دے سکتے ہیں۔

مستقبل کا منظرنامہ

بلاشبہ یہ سب واقعات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں جن میں بہتری کے بجائے ابتری آ رہی ہے اور ہو سکتا ہے کہ آنے والے مہینوں میں ہمیں اس خطے میں مزید فوجی حرکت یا سفارتی کشمکش دیکھنے کو ملے۔

امریکی دباؤ کے الٹے نتائج

امریکی صدر وہم کی دنیا میں جی رہے ہیں اور خود کو 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں محسوس کر رہے ہیں، جب امریکہ کی طرف بحری بیڑا بھیجوائے جانے کی خبر پھیلتے ہیں کچھ ممالک کی حکومت بدل جایا کرتی تھیں حالانکہ ان کا ملک اپنی تاریخ کے تلخ دور سے گذر رہا ہے، اور اس کے اقدامات کے اثرات برعکس ہیں۔

اس وقت نہ صرف روسی بحریہ نے امریکی پابندیوں کے اعلان کے بعد بحیرہ جاپان کا رخ کیا ہے بلکہ چند ہی روز قبل جب امریکہ نے بھارت کو الٹی میٹم دیا کہ یا تو وہ روس کا تیل خریدنا بند کردے یا پھر اپنی مصنوعات پر 35٪ محاصل لگنے کے لئے تیار رہے؛ تو بھارت نے روس سے تیل خریدنے کا سلسلہ جاری رکھا؛ جس پر ٹرمپ نے گذشتہ الٹی میٹم میں ٹیرف کی شرح بڑھا کر 50٪ کردی؛ لیکن بھارت نے پھر بھی امریکی دباؤ نہیں مانا اور 50٪ ٹیرف لگنے کے بعد بعد بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی نے چین کے سرکاری دورے کا اعلان کیا؛ کیونکہ عالمی سطح پر امریکی بالادستی اور جابرانہ پالیسیاں اب اس کے اپنے دوستوں کے لئے بھی اذیت ناک بن رہی ہے؛ چنانچہ امریکہ کے قریبی دوست بھی اس کی من مانیوں سے چھوٹ پانے کے لئے چین کی راہ لیتے ہیں تاکہ امریکیوں کو یہ پیغام بھیج دیں کہ انہیں ـ برازیلی صدر کے بقول ـ 'مزید کوئی بادشاہ نہیں چاہئے"، یا "امریکی صدر دنیا کا تھانیدار نہیں ہے"، اور یہ کہ امریکی سرکردگی میں یک قطبی دنیا کا سورج ڈوب رہا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha